Sunday 4 September 2016

سوالاکھ کا بکرا


سوا لاکھ کا بکرا

 

    بِلُّو کی اماں چیخ رہی تھی،:”ارے بِلّو کے ابا! یہ تم نے کیا کردیا ،ایک گھسا پٹا جانور لے کر آگئے۔ارے لوگ کیا کہیں گے کہ دیکھوان بیچاروں کو گھساپٹا جانور قربانی کے لیے ملا۔لوگوں کی باتیں ہی جینے نہیں دیں گی۔اس لیے واپس جاﺅ،کوئی اچھی سی قیمت میں اچھا سا جانورلاﺅ تاکہ لوگوں کوکچھ منہ دکھانے کے قابل ہوجائیں۔“مگربِلّوکے ابا کاچہرہ تھا کہ ٹس سے مس نہیں ہورہاتھا،وہ بِلّوکی اماں کی باتیں سن کے ایسے ساکت کھڑے تھے جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔”ارے کچھ بولتے کیوں نہیں،یہ تم کیا لے کرآگئے ہو۔سب لوگوں میں ہم ہی اس قابل ہیں کہ ان کی باتیں،طعنے سنیں۔ابھی بھی وقت ہے جاﺅاورمنڈی سے کوئی اچھا سا بکر اہی خرید لاﺅ۔ پڑوسیوں کے بچے ہمارے بچوں کواسکول میں طعنے دیتے ہیں کہ تم اتنے ہی گرے ہو،بھائی کنجوسی کی کوئی حد ہوتی ہے۔بچے روزآکر کوئی نئی داستان سناتے ہیں۔مگر تمہیں کوئی فکر ہی نہیں،اپنے کام میں مگن رہتے ہو اورلوگوں کی باتوں کے نشترہمیں سہناپڑرہے ہیں۔“بِلّوکے اباکے ماتھے پر کچھ سلوٹیں پڑیں مگرابھی تک انہوں نے کوئی لفظ منہ سے نا نکالا بلکہ سنتے ہی چلے جارہے تھے۔مگرجب دیکھا کہ بِلّو کی اماں کچھ زیادہ ہی بے باک انداز میں تمام حدودوقید سے بڑھتی جارہی ہیں۔توانہوں نے خاموشی توڑی اوربولے :”ارے بِلّوکی اما!تم بھی کمال کرتی ہو، قربانی ہی کرنی ہے، کیااس بکرے کی قربانی قبول نا ہوگی؟“مگربلو کی اماں توگویا جل بھن کرکباب بنی ہوئی تھیں،وہ کوئی بات بھی سننے پرآمادہ نہ تھیں۔مجبورابلو کو لے کراباجی منڈی واپس گئے اورایک اچھی قیمت کا بکرالے کرگھرآگئے۔اس کی جسامت پہلے بکرے سے کچھ زیادہ تھی اورگوشت بھی کچھ زیادہ نکلنا تھا مگراس کی قیمت اللہ اللہ مت پوچھیے۔ایک لاکھ بیس ہزارروپے ،غریب توسن کر کان کوہاتھ لگائے۔بلو ہاتھ میں بکرا پکڑے اباجی کے ساتھ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے،اندرسے کڑاکے دارآواز ابھری”ارے کتنے کالائے ہو؟“ بلو خوشی خوشی فاتحانہ انداز میں بولا”ایک لاکھ بیس ہزار کا“یہ سنتے ہی اماں جی کاغصہ کافور ہوگیا اوران کے بے چین دل کوقرار آگیا۔


    یہ توایک بلوکی اماں اورابا کی حالت ہے مگرآج اکثریت اس مرض میں مبتلاءہے۔قربانی تواللہ تعالیٰ کا حکم مان کرسنت ابراہیمی کو زندہ کرنے کے لیے کرتے ہیں مگردادلوگوں سے وصول کرتے ہیں۔یہ مرض عوام کے بہت زیادہ طبقے میں پھیل چکا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ایمان میں نقص اورلوگوں کودکھانے کے لیے عبادت کی جاتی ہے،ناکہ اللہ تعالیٰ سے اجروثوب کی امیدرکھتے ہوئے۔ہرسال ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے،عید سے پہلے مہنگے داموں جانور خریدے جاتے ہیں، بچوں کوعیدسے پہلے عید کی خوشیاں سمیٹنے کا موقع مل جاتا ہے۔جانوروں کوگھمانا ،ان کے لیے گھاس لانا،ان سے پیار کرنا اورمحبت سے ان کی پیٹھ پرہاتھ سہلا کر بچے بھی محذوذ ہوتے ہیں۔ یہ تو قابل تعریف بات ہے مگراس میں جونمودونمائش اوردکھلاوے کا پہلو ہے وہ قابل مذمت ہے۔کیونکہ تمام نیک اعمال کے نتیجہ اللہ تعالیٰ نے انسان کوجنت کی صورت میں عطا کرنا ہے مگرجب اس میں ریا کاری کاشبہ آجاتا ہے تووہ عمل رائیگاں ہوجاتا ہے۔ لوگ ،لوگوں کی باتوں اور طعنوں سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے اجرسے محروم رہنے والے اعمال میں مگن ہوجاتے ہیں۔جسے عرف عام میں ریاکاری سے موسوم کیا جاتا ہے۔قربانی کی عید آتے ساتھ ہی لاکھوں کی مالیت کا ایک ایک جانورچاہے وہ بکرے کی صورت میں ہو یابیل کی صورت میں یااونٹ وہ خریدا جاتا ہے اورپھراس پر فخر کیا جاتا ہے۔اس کے ساتھ کھڑے ہوکر تصویر کشی کی جاتی ہے۔پھراس تصویر کو سوشل میڈیا پرڈال کر لوگوں سے داد وصول کی جاتی ہے ۔خدانخواستہ اگر کسی امیرزادے نے اس طرح کی تصویر بناکرکسی دوست کوبھیجے اوراس کی طرف سے دادنہ ملے تواس پر غصے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اعمال سے اخلاص نکلتا جارہا ہے اوراس کی جگہ ریاری ودکھلاوا سرایت کرتا جارہا ہے۔ہم ایک سنت کی ادائیگی کررہے ہوتے ہیں مگراسی دوران کتنے ہی امور میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں۔ مثلاً لاکھوں کا جانورخریدکراسراف وتبذیر کا مرتکب ہونا،اس کے ساتھ نمودونمائش کرکے ریاکاری کاارتکاب کرنا،اس کے ساتھ تصویرکشی کرنا،لوگوں کی داد وصول کرکے عمل کااجرضائع کرنا،اس پر دادنہ ملنے کی وجہ سے غم و غصے کا اظہار کرکے اس سے لا تعلقی کرکے قطعہ تعلقی کا گناہ،غرض کہ جب اللہ تعالیٰ کی ایک نافرمانی کی تواس کی وجہ سے کتنے ہی گناہوں کی دل دل میں ہم دھنستے چلے گئے۔ یہ حقیقت ہے کہ نیکی نیکی کوکھنچ لاتی ہے جبکہ گناہ گناہ کو کھینچ لاتا ہے۔اس لیے جب ہم اللہ تعالیٰ کی ایک نافرمانی کا ارتکاب کرتے ہیں تواس وقت ہماری زندگی گناہوں کی تاریک راہ پر گامزن ہونا شروع ہوجاتی ہے۔آخر میں نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمارے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورة الغاشیہ میں اس کی خبردی ہے:”کہ قیامت کے دن کچھ چہرے جھکے ہوں گے،عمل کرکے تھکے مانندے ہوں گے،مگر انہیں بھڑکتی آگ میں داخل کردیا جائے۔جس میں انہیں گرم ابلتے چشمے سے پانی پلایا جائے گا۔اس میں ان کے کھانے کے لیے صرف خطرناک کانٹے ہوںگے۔ناتو وہ حلق سے نیچے اتریں گے نا ہی ان سے بھوک مٹے گی۔“ اس لیے ہم نے دنیا میں اپناراستہ درست کرنا ہے تاکہ قیامت کے دن رسوائی کا سامنا ناکرنا پڑے۔اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے!
تحریر:حبیب اللہ
رابطہ: 8939478@gmail.com
جامعة الدراسات الاسلامیہ،گلشن اقبال بلاک نمبر7کراچی

1 comments:

Unknown نے لکھا ہے کہ

واقعی عید قربان اگرچہ خوشی کا تہوار ہے مگراس پر فحاشی و عریانی اور گناہوں کو انجوئمنٹ کا نام دیا جاتا ہے جو ک بالکل غلط ہے اللہ ہمیں اس طرح کی بری عادات سے بچائے۔آمین

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔